میں ضلع جالندھر کی ایک بستی شیخ درویش کے ایک متوسط راجپوت گھرانے میںپیدا ہوئی۔ میرے والد صوفی اور درویش انسان تھے‘ بارہ سال جنگل میں اپنے پیر غلام جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ عبادت میں مشغول رہے‘ میرے والد خود حفظ نہ کرسکے۔ اپنے اکلوتے لڑکے کو بہت چاہا کہ حفظ کرے مگر وہ بھی نہ کرسکا ہروقت والد صاحب کے دل میں اس چیز کا احساس رہتا بلکہ بعض اوقات رو دیتے۔
میں ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی‘ والد صاحب کے دل میں یہ اشتیاق پیدا ہوا کہ جو بچہ اب پیدا ہوگا اس کو انشاء اللہ ضرور حفظ کراؤں گا۔ اتفاق کی بات کہ میں لڑکی پیدا ہوئی تو ان کا شوق بجھ سا گیا کیونکہ اس وقت تعلیم کا اتنا چرچا نہ تھا اور یہ وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ لڑکی بھی قرآن حفظ کرسکتی ہے میں جب گیارہ سال کی ہوئی اور چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی تو میری بڑی بہن اتفاق سے ایک جلسے میں گئیں وہاں ایک حافظ خوشی محمد صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت قرأت سے کی وہ اتنی خوش الحانی سے پڑھتے تھے کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ میری بہن نے گھر آکر والد سے ذکر کیا میرے والد انہیں تلاش کرکے گھر لائے کہ میری لڑکی کو بھی قرأت سکھادو۔ انہوں نے قبول کرلیا‘ پھر مجھے قرأت سکھانی شروع کردی میرے ذوق وشوق اور خوش الحانی کو دیکھ کر وہ بہت محنت سے پڑھانے لگے۔ جب میں پڑھتی تو والد صاحب بہت خوش ہوتے‘ میرے والد صاحب کے شوق کو دیکھ کر حافظ جی صاحب نے مجھے بھی باقاعدہ قرأت شروع کرائی۔ چنانچہ زینت القاری‘ مفید القاری‘ سراج القاری ان کتابوں کی باریکیاں ذہن نشین کرائیں۔ میں دن بدن شوق اور دلچسپی سے پڑھتی تو حافظ صاحب بڑی توجہ اور پیارو محبت سے پڑھاتے اور چند ایک سورتیں حفظ کرا کر ان میں خاص خاص طور پر خوش الحانی‘ مصری لہجے اور عربی لہجے کی مشق کرائی۔ بستی میں ایک نیا چرچا تھا۔ آواز بھی خداداد چیز ہے اس سے اور بھی لذت پیدا ہوجاتی ہے۔ دور دور سے لوگ سننے کیلئے آتے اور میرے والد خوشی سے مجھے سنانے کی اجازت دے دیتے۔
اتفاق کی بات یہ کہ شعبان کا مہینہ تھا۔ حافظ جی صاحب پڑھاتے پڑھاتے کہنے لگے ’’بیٹی تم نے بہت سی سورتیں حفظ کرلیں آؤحساب لگائیں کہ کتنے پارے حفظ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے حساب لگایا تو سات پارے میں نے حفظ کرلیے تھے۔ فرمانے لگے ہمت کرو اس دفعہ رمضان شریف میں اپنے محلے کی عورتیں اکٹھی کرکے فجر کی نماز کے بعد سب کو قرآن سنایا کرو۔ میں حوصلہ نہیں کرسکتی تھی لیکن انہوں نے میری ہمت بڑھائی ہمارے محلے میں تقریباً سب ہی شریف لوگ تھے‘ سیدھے سادے اور سیدھی سادی زندگی گزارنے والے۔ چنانچہ رمضان شریف آیا تو سب عورتیں خوشی سے فجر کی نما زکے بعد ہمار ے گھر آنے لگیں۔ میرا شوق بڑھنے لگا‘ رات کوجتنا یاد کرتی صبح کو فجر کی نماز کے بعد میں سنادیتی‘ عورتیں بہت خوش ہوتیں اور میں بھی بہت دلچسپی لینے لگی۔جتنی سورتیں حفظ تھیں وہ آسانی سے سنادیں۔ اب عورتیں پیچھا نہیں چھوڑتی تھیں اور خود بھی دل چاہتا کہ رمضان شریف ایسے ہی پورا ہو۔ عجیب لطف و لذت محسوس ہوتا۔ حافظہ کھل چکا تھا اور طبیعت ادھر مائل ہوچکی تھی۔ سچی بات ہے جو دل کو اس سچے کلام کی طرف راغب کرے خدا خود اس کیلئے ایسے ایسے وسائل مہیا کردیتا ہے جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں وہ وسیع راستے کھلتے ہیں۔ پھر یہ حال تھا کہ رات کوجتنا یاد کرتی فجر کے بعدمیں عورتوںکو بٹھا کر سنادیتی۔ اس طرح سارے رمضان شریف میں بیس سپارے میں نے سنادئیے میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور گھر والے خاص کر والد صاحب پھولے نہ سماتے خود دل میں ایک لگن اور ولولہ پیدا ہوگیا۔
یہ بتادینا ضروری سمجھتی ہوں کہ ان دنوں میں مدرسۃ البنات جالندھر میں پڑھ رہی تھی‘ اس میں دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم ضروری بلکہ لازمی تھی۔ مدرسۃ البنات کے بانی مولانا آقا جی صاحب اور ان کی بیوی مجھے دل و جان سے چاہتے تھے بلکہ جب تک زندہ رہے اپنی بیٹیوں سے کبھی کم خیال نہیں کیا۔ خدائے تعالیٰ دونوں کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ آمین۔ وہ مجھے سکول ٹائم کے بعد پڑھاتے رہے۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید کا ترجمہ اور حدیث شریف صحیح بخاری اور ان نیک ہستیوں سے پڑھی وہ بھی مجھے بہت محنت اور شوق سے پڑھاتے رہے۔ اگلے سال پھر رمضان کا مہینہ آیا تو میں قرآن پاک کی مکمل حافظہ تھی۔ میں خود حیران تھی کہ یہ کیسے اتنا بڑا کام اتنی جلدی اور ہنسے کھیلتے خدا کی قدرت سے معجزہ بن گیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں